ہی مویشوں کو چارہ۔ تھر میں اب تک ایک سو اکیتس سے زائد بچے جان بحق ہوچکے ہیں اور دو لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہیں۔ غذائی قلت اور قحط سالی کے حوالے سے جب میڈیا پر خبریں آئیں تو سندھ حکومت جاگی کہ عوام کی مدد کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے وہاں مرنے والے بچے قحط سالی سے نہیں بلکہ دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوئے ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت دیگر پی پی لیڈران بھی اس بات کی تائید کرتے رہے تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔تھر ایک صحرائی علاقہ ہے اور اس سال بارشیں بھی کم ہوئیں جس کے بارے میں حکومت سندھ کو محکمہ موسمیات پہلے ہی آگاہی دے چکی تھی تاہم حکومت سندھ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور مربوط پالیسی کے فقدان کے باعث تھر میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
اس وقت تھر میں متاثر بچے اسپتالوں میں شدید کرب سے گزر رہے ہیں کم عملہ، ادویات کی قلت اور جدید مشینری کی کمی کے باعث بہت سی اور اموات کا خدشہ ہے۔جیو پر خبر نشر ہونے کے بعد بہت سے عالمی ادارے اور مخیر حضرات حرکت میں آگئے اور متاثرین تک امداد کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم سندھ حکومت نے پہلے تو صرف بیان بازی اور بعد میں ایک تھر متاثرین فنڈ قائم کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد تھر کے دوروں کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو کہ سندھ کے وزیر صحت بھی ہیں اور ان کے داماد اقبال درانی سیکریٹری صحت ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ سرکاری سطح پر گندم کی تقسیم صحیح طور پر نا ہو سکی اور انہوں نے حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا۔تاہم اس اعتراف کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ تھر میں بھوکے مر رہے ہیں، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی آمد پر پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں انواع اقسام کے کھانے پیش کیے گئے۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ایک طرف علاقے میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں اور دوسری طرف افسر شاہی صرف حکومتی ارکان کو خوش کرنے میں مصروف اور جہاں لوگ ایک ایک دانے کو ترس رہے ہوں وہاں دوسری طرف ظہرانے میں ملائی تکہ، ریشمی کباب، مٹن بریانی، ذردہ موجود ہوں افسوس کا مقام ہے۔
دس مارچ کو چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی مٹھی تھر پارکر پہنچ گئے ان کے دورے سے پہلے تما م سڑکیں صاف کی گئی، تما م دکانیں، بازار بند کروادیے گئے اور ستم ظریفی تو ملا حظہ ہو واحد سرکاری اسپتال کے دروازے بھی سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے اور مریض بے یارومدگار در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ حکومت سندھ سے اس صورتحال پر انکوائری کرنے کا حکم دیا اب وزیر اعلیٰ جو خود ہی وزیر صحت بھی ہیں، کیا کاروائی کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ یہ محکمہ تو ان کے خاندان کے ہی ماتحت ہے۔
صرف تھر کی کیا بات کریں سندھ کے چوبیس میں سے آٹھ دیگر اضلاع بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور بات ہو اگر پورے پاکستان کی تو اس وقت پاکستان کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور کہنے کو یہ زرعی ملک ہے۔وقت کی ضرورت اس وقت صرف اعلانات یا انکوائریاں کروانے کا نہیں بلکے یہ وقت فوری طور پر تھر کے متاثرین کو امداد پہنچانے کا ہے۔ان کو اس وقت امرا کے دوروں یا اعلانات کی نہیں، اناج کی ضرورت ہے ان کو فوری طور پر پانی، بسکٹ، دودھ، کپڑوں اور خیموں کی ضرورت ہے۔تھر میں لوگ امداد کے منتظر ہیں، گندم کی تقسیم کا کام بہت سست روی سے جاری ہے مانگنے والے بہت ہیں لیکن دینے والے بہت کم۔آٹا، چاول، دودھ سب ہی تھر میں نا پید ہے اس لیے ہم سب کو تھر کے عوام کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نا ہوں گی جس سے خشک سالی، قحط سالی اور غذائی قلت پر قابو پایا جاسکے اور اس مجرمانہ غفلت پر محمکہ خوراک کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔
اس وقت تھر میں متاثر بچے اسپتالوں میں شدید کرب سے گزر رہے ہیں کم عملہ، ادویات کی قلت اور جدید مشینری کی کمی کے باعث بہت سی اور اموات کا خدشہ ہے۔جیو پر خبر نشر ہونے کے بعد بہت سے عالمی ادارے اور مخیر حضرات حرکت میں آگئے اور متاثرین تک امداد کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم سندھ حکومت نے پہلے تو صرف بیان بازی اور بعد میں ایک تھر متاثرین فنڈ قائم کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تنقید کے بعد تھر کے دوروں کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جو کہ سندھ کے وزیر صحت بھی ہیں اور ان کے داماد اقبال درانی سیکریٹری صحت ہیں، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ سرکاری سطح پر گندم کی تقسیم صحیح طور پر نا ہو سکی اور انہوں نے حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا۔تاہم اس اعتراف کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ تھر میں بھوکے مر رہے ہیں، وہاں وزیر اعلیٰ سندھ کی آمد پر پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا جس میں انواع اقسام کے کھانے پیش کیے گئے۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ایک طرف علاقے میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں اور دوسری طرف افسر شاہی صرف حکومتی ارکان کو خوش کرنے میں مصروف اور جہاں لوگ ایک ایک دانے کو ترس رہے ہوں وہاں دوسری طرف ظہرانے میں ملائی تکہ، ریشمی کباب، مٹن بریانی، ذردہ موجود ہوں افسوس کا مقام ہے۔
دس مارچ کو چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی مٹھی تھر پارکر پہنچ گئے ان کے دورے سے پہلے تما م سڑکیں صاف کی گئی، تما م دکانیں، بازار بند کروادیے گئے اور ستم ظریفی تو ملا حظہ ہو واحد سرکاری اسپتال کے دروازے بھی سیکورٹی کے نام پر بند کردیے گئے اور مریض بے یارومدگار در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے۔ وزیراعظم نے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ حکومت سندھ سے اس صورتحال پر انکوائری کرنے کا حکم دیا اب وزیر اعلیٰ جو خود ہی وزیر صحت بھی ہیں، کیا کاروائی کریں گے؟ اور کس کے خلاف؟ یہ محکمہ تو ان کے خاندان کے ہی ماتحت ہے۔
صرف تھر کی کیا بات کریں سندھ کے چوبیس میں سے آٹھ دیگر اضلاع بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اور بات ہو اگر پورے پاکستان کی تو اس وقت پاکستان کی اڑتالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور کہنے کو یہ زرعی ملک ہے۔وقت کی ضرورت اس وقت صرف اعلانات یا انکوائریاں کروانے کا نہیں بلکے یہ وقت فوری طور پر تھر کے متاثرین کو امداد پہنچانے کا ہے۔ان کو اس وقت امرا کے دوروں یا اعلانات کی نہیں، اناج کی ضرورت ہے ان کو فوری طور پر پانی، بسکٹ، دودھ، کپڑوں اور خیموں کی ضرورت ہے۔تھر میں لوگ امداد کے منتظر ہیں، گندم کی تقسیم کا کام بہت سست روی سے جاری ہے مانگنے والے بہت ہیں لیکن دینے والے بہت کم۔آٹا، چاول، دودھ سب ہی تھر میں نا پید ہے اس لیے ہم سب کو تھر کے عوام کی مدد کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نا ہوں گی جس سے خشک سالی، قحط سالی اور غذائی قلت پر قابو پایا جاسکے اور اس مجرمانہ غفلت پر محمکہ خوراک کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔
0 comments:
Post a Comment