ظلم، بربریت، بے حسی، حیوانیت جیسے الفاظ بھی شرما جائیں ان کے سامنے۔
مگر یہ کونسا انصاف ہے؟؟؟
پہلے اجتماعی طور پر ڈنڈو سے مارا
پھر پتھر مارے
یوحناآباد میں چرچ پر حملوں کے بعد احتجاج کے دوران جلائے جانیوالے دوافرادمیں سے ایک کی شناخت ہوگئی ۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق مرنیوالے ایک شخص کی شناخت محمد نعیم کے نام سے ہوئی اوروہ قصور کارہائشی تھا۔
للیانی کے رہائشی محمد سلیم نے تھانہ نشترٹاﺅن میں دی گئی درخواست میں موقف اپنایاکہ محمد نعیم یوحناآباد میں شیشے کا کاروبار کرتاتھا اور دکان مالک نے بتایاکہ دھماکے کے بعد محمد سلیم دکان سے بھاگ کھڑا ہواجس پر مسیحی برادری کے مشتعل ہجوم نے اُسے پکڑکرتشدد کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اُتاردیا اور جلائے جانیوالے افراد میں محمد نعیم بھی شامل ہے ۔
محمد سلیم کی درخواست پولیس نے جمع کرلی ہے تاہم اس پر کوئی مزید کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ پولیس حکام نے سلیم کو میڈیا پرآنے سے روکتے ہوئے بتایاکہ اعلیٰ پولیس حکام کی میٹنگ شیڈول ہے اور اس دوران درخواست سامنے رکھی جائے گی جس کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا۔
92نیوز کے مطابق نعیم کے اہلخانہ نے پولیس سے رابطہ کیاہے اور پولیس لواحقین کو لے کر جناح ہسپتال پہنچ گئی ۔ اس بارے میںباضابطہ سرکاری موقف معلوم نہیں ہوا۔
ہم جو اِنسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
یوحنا آباد سانحہ قابل مذمت ہے،مگر بے گناہ افرادکو زندہ جلانا درندگی ہے،
انسانی حقوق کی علمبردارتنظیمیں دلخراش واقعےپر خاموش کیوں ہیں،
بے گناہ افرادکو جلانااورملکی املاک کو نقصان پہنچانا بھی دہشت گردی ہے۔
0 comments:
Post a Comment